اگر آپ صحرائے عرب کی تاریخ کے اوراق پلٹیں اور کسی صفحہ پر الفاظ کی بجائے خون کے چھینٹے نظر آئیں تو یقین کیجئے کہ اس صفحہ پر کسی شہید کی کہانی لکھی ہوئی ہے۔ فلم ’’شہید ‘‘کی کہانی بھی مصنف ریاض شاہد نے صحرائے عرب کے پس منظر میں لکھی ،جب لارنس آف عریبیہ اپنی سازشوں میں مصروف تھا اور عرب کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشیں کر رہا تھا۔۱۹۲۲ کا دور ، عربوں کی تاریخ کا سنہرا اور خونی ورق کا دور ہے جسے فلم’’ شہید‘‘ کا نام دیا گیا۔
اس فلم سے وابستہ ہر شخص چاہے وہ سکرین کے سامنے ہو یا پیچھے اپنی بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ پاکستان کی شاہکار فلموں میں سے ایک ہے۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جذبہ حب الوطنی سے بھر پور اس شاہکار کی موسیقی اس فلم کی سب سے بڑی خوبی تھی۔
میری نظریں ہیں تلوار
کس کا دل ہے روکے وار
توبہ توبہ استغفار
اس کے علاوہ
نقاب جب اٹھایا
شباب رنگ لایا
اس کے دو طربیہ نے بے حد زبان زد عام ہوئے جبکہ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔ چلی ہے رسم کوئی نہ سر اٹھا کے چلے انتہائی معنوی اعتبار سے لاجواب نغمے تھے۔ یہ پہلی فلم تھی جسے مجموعی طور پر9نگار ایوارڈ ملے۔ ان میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار خلیل قیصر،بہترین کہانی مکالم نگار ریاض شاہ، بہترین اداکارہ مسرت نذیر، بہترین معاون اداکار طالش، بہترین موسیقار رشید عطرے، بہترین نغمہ نگار فیض احمد فیض، بہترین گلوکارہ نسیم بیگم (اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو) کے نام شامل تھے۔
