سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں ایک کیس کی سماعت ہوئی ۔ جس میں خاتون پر تیزاب پھینکنے کیخلاف ملزم کی اپیل پر سماعت ہوئی، عدالت نے ملزم کی درخواست مسترد کر دی اور ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ تیزاب گردی کے مجرم کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔
ملزم کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ جس خاتون پر تیزاب پھینکا گیا ہے اس نے ملزم کو معاف کر دیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون بے شک معاف کرے قانون معاف نہیں کر سکتا، تیزاب گردی کے کیس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ تیزاب گردی سے متعلق قانون انتہائی سخت ہے، کسی کو تیزاب سے جلانا قتل سے بھی بڑا جرم ہے، تیزاب سے خاتون کو جلانا بہت بڑا ظلم ہے۔کسی پر تیزاب پھینکنے کی سزا عمر قید ہے۔ تیزاب گردی قتل سے بڑا جرم ہے ، تیزاب گردی ریاست کیخلاف جرم ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا تھا ہو سکتا ہے متاثرہ خاتون کو دھمکا کر بیان سپریم کورٹ بھیجا گیا ہو لیکن قانون تیزاب سے چہرہ جلانے والے کو معاف نہیں کر سکتا۔
جب ہم نے اس بھیانک جرم کے متعلق معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں تو دنگ رہ گئے کہ جن معاشروں میں یہ جرم بہت زیادہ ہوتے ہیں وہاں وجہ بھی یہی ہے کہ جرم کرنے والا باآسانی چھوٹ کر دندناتا پھرتا ہے اور جس مظلوم پر تیزاب پھینکا گیا ہوتا ہے وہ ہسپتالوں میں دربدر ہو رہی ہوتی ہے اور مجرم دوسروں کے حوصلے بڑھا رہاہوتا ہے ۔ اور ظلم کا شکار ہونے والی نشان عبرت بنی پھرتی ہے۔
یہاں ہم نے مونث کا صیغہ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ اس ظلم کا شکار خواتین ہوتی ہیں۔
