وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر آج ایک پیغام جاری کیا جس کے مطابق انہوں نے لکھا ہے کہ آج میں نے ہدایات جاری کر دی ہیں کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین بینک اکائونٹس کھلوا سکتے ہیں اور اب سے باضابطہ طور پر ملکی معیشت میں حصہ لے سکتے ہیں یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ یہ اقدام بہت پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔
بات ٹھیک ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا جیسا کہ دنیا بھر میں جو بچے جس ملک میں پیداہوتے ہیں ان کو وہی کی شہریت مل جاتی ہے۔ اگر کسی مہاجر کا بچہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوتا ہے تو اس کو اس کی شہریت مل جاتی ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں اس کےلیے قوانین سازی ہی نہیں ہوئی ہے۔
وزیراعظم کی ابتدائی تقاریر کو دیکھا جائے تو اس میں انہوں نے ناصرف افغان مہاجرین بلکہ کراچی میں بسنے والی دوسری برادریوں کوبھی حوصلہ کا اندیہ دیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوگا جس کی ابتداء شاید اس اقدام سے ہوچکی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک زبردستی مہاجرین کو نہیں نکال سکتا ، دوسرا افغان مہاجرین کی ایک نہیں کئی نسلیں یہاں آباد ہو چکی ہیں ،یہاں شادیاں ہو چکی ہیں ، کاروبار کررہے ہیں ۔ اب آج آپ ان کو کہیں کہ یہاں سے نکل جائو تو مشکل ہوگا ۔ویسا بھی یہ انسانی ہمدردی کے بھی برخلاف ہے۔
لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل بھی مکمل ہوناچاہیے یہ واضح ہونا چاہیے کہ کون سے افغان یہاں کس کس صوبے میں اور کتنی تعداد میں آباد ہیں۔ اس سے ان کو سہولتیں دینے کے ساتھ ساتھ ملکی معاملات میں بھی بہتری آئے گی ۔ کیونکہ شنید ہے کہ بہت سے افغان مہاجرین پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔
کراچی میں بسنے والی برادریوں کی طرف بھی حکومت کو غور کرنا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک عرصے سے پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کے لیے کچھ کرے گا ۔یہاں پر ہم بنگلہ دیش میں آباد ایک پاکستانی کمیونٹی کا ذکر کرنا چاہیے گے ،انہیں بنگلہ دیش میں پاکستانی کہا جاتا ہے ان کو نہ تو شناختی کارڈ ملتے ہیں اورنہ ہی ان کے علاقوں میں ڈویلپمنٹ کا کام ہوتا ہے۔ ہم سے دولخت ہوئے ہمارے حصے میں کچھ لوگ آج بھی پاکستان کا نام سنبھالے ہوئے ہیں ان کی طرف بھی ہمدرانہ غور کی ضرورت ہے۔
